کاشف حباب

شاعری سے مجھے کچھ سروکار نہیں - - صدائے وقت ہوں میں فنکار نہیں

 شمالی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ بھی ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے ۔ ملک کی کل آبادی 5...

 شمالی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ بھی ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے ۔ ملک کی کل آبادی 55 لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ لیکن آپ کمال دیکھیں اس وقست تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے ۔2020 تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائیگی ۔ فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر ۔ دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے ، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گذارتے ہیں ، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں مٰیں ہوتی ہے اور یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں ۔خیر ، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے ۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں ۔فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئیر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے ۔ پورے ملک کی یونیورسٹیز کے ” ٹاپ ٹین ” ماسٹرز کئیے ہوئے طالبعلموں کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے ۔سات سال سے پہلے بچوں کے لئیے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے کہ جس میں ماں باپ بچے کی نیندیں حرام کردیں ۔ان کے کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے پر پابندی لگ جائے ، دروازے کھڑکیاں بند کر کے انھیں گھروں میں ” نظر بند ” کردیا جائے ۔ گھر میں آنے والے مہمانوں سے ملنے تک پر پابندی عائد کردی جائے اور گھر میں مارشل لاء اور کرفیو کا سا سماں بندھ جائے ۔پورے ملک میں تمام طلبہ و طالبات کے لئیے ایک ہی امتحان ہوتا ہے ۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں ، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں ” ۔


آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں ۔ حضرت علی نے فرمایا ” جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں ” ۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علی کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی ۔ بہر حال ، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے ۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انھوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں- یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز- اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انھوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ” آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے ۔ جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں ۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لئیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں ، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے ۔


دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے ، ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں ۔آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں ، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں ، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں ، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں ۔اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں ، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں ۔ آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا ؟ سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے ۔ ہم تیرہ چودہ سال تک بچوں کو قطار بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے – ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو ” سوشل اسٹڈیز ” پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا ” سوشل ” ہونا سیکھا ہے ۔ اسکول مین سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گذرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنسدان ” نامی چیز نظر نہیں آئیگی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ” رٹا ” لگواتے ہیں ۔

آپ حیران ہونگے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858 میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اسلئیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لئیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیے ہیں ۔دو سال بعد 1860 میں اساتذہ کی آسانی کے لئیے پاسنگ مارکس 33 کردئیے گئے ۔ اور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس ” گلے سڑے ” اور ” بوسیدہ ” نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں ، بچوں کو ” طوطا ” بنانے کے بجائے ” قابل ” بنانے کے بارے میں سوچیں ۔یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم ابھی تک ” رٹا سسٹم ” کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔ بہرحال ، انشاء اللہ اپنے اگلے کالم میں وہ خاکہ پیش کرونگا کہ میرے علم ، تجربے اورمشاہدے کے مطابق ” جدید تعلیمی نظام ” کیسا ہونا چاہئیے ۔میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں ، جو جتنے بڑے  اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے – ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو ” سوشل اسٹڈیز ” پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا ” سوشل ” ہونا سیکھا ہے ۔ اسکول مین سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گذرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنسدان ” نامی چیز نظر نہیں آئیگی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ” رٹا ” لگواتے ہیں ۔

آپ حیران ہونگے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858 میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اسلئیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لئیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیے ہیں ۔دو سال بعد 1860 میں اساتذہ کی آسانی کے لئیے پاسنگ مارکس 33 کردئیے گئے ۔ اور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس ” گلے سڑے ” اور ” بوسیدہ ” نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں ، بچوں کو ” طوطا ” بنانے کے بجائے ” قابل ” بنانے کے بارے میں سوچیں ۔یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم ابھی تک ” رٹا سسٹم ” کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔ بہرحال ، انشاء اللہ اپنے اگلے کالم میں وہ خاکہ پیش کرونگا کہ میرے علم ، تجربے اورمشاہدے کے مطابق ” جدید تعلیمی نظام ”کیسا ہونا چاہئیے

(منقول)


Poet: Kashif Habaab Ajj Dil Di Kehn Nu Ji Karda Tere Dil Wich Rehn Nu Ji Krda De K Apniyan Khushiyan Tenu Tere Dukhre Sehn Nu Ji Karda Bana ...

Poet: Kashif Habaab

Ajj Dil Di Kehn Nu Ji Karda
Tere Dil Wich Rehn Nu Ji Krda

De K Apniyan Khushiyan Tenu
Tere Dukhre Sehn Nu Ji Karda

Bana K Sheesha Wekhan Wala
Tere Sahnwen Behn Nu Ji Karda

Ho K Dunya Ton Ik Passay
Kite Kaallyan Behn Nu Ji Karda

Tere Husn Te Sohne Mukh Uttay
Aj Shaeiry Kehn Nu Ji Karda

Bara Pyara Lagda En Kashif Nu
Tenu Apnaa Len Nu Ji Karda

 


 


مائیں نی مینوں بستہ لے دے اَتے لے دے قلم دواتاں میرا جی کردا میں وی لِکھاں اندر دیاں کوئی باتاں مائیں نی مینوں بستہ لے دے وچ پا دے گا...

مائیں نی مینوں بستہ لے دے
اَتے لے دے قلم دواتاں
میرا جی کردا
میں وی لِکھاں
اندر دیاں کوئی باتاں

مائیں نی مینوں بستہ لے دے
وچ پا دے گاچی، بان
اَتے اوس سکولے
پا دے جِتھوں
لبّھے فہم گیان

مائیں نی مینوں سڑکے لا دے
صِراطِ مُستَقیم دے
عِجز دا ٹُکّر
بوجھے پا دے
 نالے ہتھ کوئی تقویم دے

مائیں نی میری تختی اُتے
کُجھ اَکھر آپ اُلیکدے
میں تنزیل دا
ہویا سوالی
میرے نیتر تینوں اُڈیکدے

کاشف حباب

Dr. Fazeelat bano Dr. Riaz Hamdani Prof. Akram Nasir Prof. Asim Aslam Dr. Farheen choudhry Syed tehseen gillani Farooq akmal Dr. Ad...

Dr. Fazeelat bano
Dr. Riaz Hamdani
Prof. Akram Nasir
Prof. Asim Aslam
Dr. Farheen choudhry
Syed tehseen gillani
Farooq akmal
Dr. Adeel hashmi
International microfiction conference sahiwal 2020





ہنٹا وائرس ۔ ۔ ایک نیا خوف از قلم کاشف حباب حالیہ بین الاقوامی صورت حال سے ہم سب بخوبی آشنا ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلنا اور اس سے غیر مع...

ہنٹا وائرس ۔ ۔ ایک نیا خوف
از قلم
کاشف حباب

حالیہ بین الاقوامی صورت حال سے ہم سب بخوبی آشنا ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلنا اور اس سے غیر معمولی اموات کا ہونا، حفاظتی اقدامات سے لے کر ویکسین کی تیاریوں کے مراحل تک کی تمام خبریں ہماری سماعتوں کو اپنا لمس ضرور دے چکی ہوں گی۔ اسی کشاکش میں خوف کے ایک اور نام نے ہمارے ذہنوں کو اپنی طرف منعطف کیا ہے۔ وہ نام "ہنٹا وائرس"کا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق چین کے صوبہ ینان کا باشندہ جو کہ بس میں سفر کرتے ہوئے صوبہ شندونگ جا رہا تھا۔ اچانک بس میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق معلوم ہوا کہ اس کی موت ہنٹا نامی وائرس سے ہوئی ہے۔ بس میں سوار باقی مسافروں (جن کی تعداد بتیس بتائی گئی)  کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان کی رپورٹ بھی پازیٹیو آئی۔

اب جاننا ضروری یہ ہے کہ ہنٹا وائرس کب، کہاں اور کیسے وجود میں آیا ۔ اس سے متاثرہ شخص کی علامات اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہیں؟

1978 میں اس وائرس کا پتا لگایا گیا تو معلوم ہوا یہ وائرس کورین ہیمورولوجک فیور بیماری کا نام ہے جو کہ شمالی کوریا میں ہنٹن نامی دریا کے کنارے رہنے والے چوہوں کی وجہ سے پھیلتی ہے۔
1981 میں اس وائرس کا نام ہنٹا وائرس رکھا گیا۔
پہلا سوال کہ یہ وائرس چوہوں سے انسانی وجود میں آتا کیسے ہے؟ کیوں کہ عام طور پر انسان کا چوہوں اور گلہریوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو بلا واسطہ طور پر چوہوں کے کھا کے چھوڑے (کترے) ہوئے پھل سبزیاں یا کچھ بھی استعمال کی چیز جنہیں انسان مستعمل کرے۔ چوہوں کے فضلے اور  بول و براز والے ماحول میں سانس لینے سے یا دانستہ طور پر اس کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے سے یہ وائرس انسانی جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔

ایسی خوراک انسانی جسم کے لیے ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔ جس کے رد عمل سے نہ صرف متاثرہ شخص جان سے جاتا ہے بلکہ اردگرد گرد کے لوگ بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

اس کی علامات کورونا وائرس کی طرح چھینک، نزلہ اور کھانسی کی سی بالکل نہیں ہیں۔ ہنٹا وائرس میں سر درد، بخار، متلی، قے اور ڈائیریا کی سی کیفیت ہو جاتی ہے۔
اس کی شدت کا اندازہ لگانے سے قبل طبی ماہرین نے اس وائرس کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک، ایچ ایس آر ایف جو کہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتا۔ اس کی تشخیص کے لیے یورین ، پی سی آر یا سیرولوجک ٹیسٹ کروائے جا سکتے ہیں۔ وائرس کی یہ قسم قابلِ علاج ہے۔
 دوسری قسم ایچ پی ایس ہے۔ اس میں علامات بھی وہی ہوتی ہیں مگر جسم میں باالواسطہ طور پر منتقل ہونے کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس قسم کے وائرس کی ویکسین دریافت نہیں ہوئی۔

ہنٹا وائرس کے لیے حفاظتی اقدامات صفائی ستھرائی کو اپنا کر بآسانی کیے جا سکتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھنے سے اور پھل سبزیاں دھو کر کھانے سے بھی ایسی آلودہ امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ رہی بات ہنٹا وائرس کو کورونا کی طرح سنگین سمجھنے کی تو ایسی خوف والی بات نہیں ہے۔ چین میں چوہے بہ طور خوراک استعمال ہوتے ہیں اس لیے اس وائرس کا وجود وہیں پر ہی ہے اور کورونا کی طرح عالمی وبائی مرض نہیں۔








آ ویکھ نی وٙردا اک تیرا پردہ اک میرا پردہ توں لکھاں پٙتی میں بختاں سٙتی توں پوسٹراں ٹنگی فیر وی ننگی میں اِکو لیڑے کٙجی ڈِھڈوں بُک...

آ ویکھ نی وٙردا
اک تیرا پردہ
اک میرا پردہ
توں لکھاں پٙتی
میں بختاں سٙتی
توں پوسٹراں ٹنگی
فیر وی ننگی
میں اِکو لیڑے کٙجی
ڈِھڈوں بُکھی نِیتوں رٙجی
نی توں سدراں کیوں اُسار دی
سانوں جیوندیاں جی مار دی
ویلا آپنے دوہاں دا اِکو ورگا
پر تیرا ہنڈدا ساڈا سردا
آ ویکھ نی آکے وردا
اک تیرا پردہ
اک میرا پردہ

کاشف حباب





Sahiwal ki adbi tareekh by Dr. Mushtaq Adil-Kashif Habaab-ساہیوال کی ادبی تاریخ_ کاشف حباب



Sahiwal ki adbi tareekh by Dr. Mushtaq Adil-Kashif Habaab-ساہیوال کی ادبی تاریخ_ کاشف حباب

محبت اور عبادت میں موحد ہونا چاہیئے...  جس کے لڑ لگ جاو.. اُسی کے ہو کر بیٹھے رہو... در بدر پھرتے رہو گے تو نامراد رہو گے.. محبت ہو خوا...




محبت اور عبادت میں موحد ہونا چاہیئے...  جس کے لڑ لگ جاو.. اُسی کے ہو کر بیٹھے رہو... در بدر پھرتے رہو گے تو نامراد رہو گے.. محبت ہو خواہ عبادت, اس میں شریک مت ٹھہراو.. نہ معبود کا نہ محبوب کا.. جب در بدر پھرو گے تو عبادت اور چاہت دونوں کی حقیقی لذت سے محروم کر دئیے جاو گے..

کاشف حباب


اُلجھی ہوئی اُلجھنوں کا سُلجھا سا حل پُر سکون لہجہ، نرم مزاج، دھیما تبسّم 💢حباب💢





اُلجھی ہوئی اُلجھنوں کا سُلجھا سا حل

پُر سکون لہجہ، نرم مزاج، دھیما تبسّم

💢حباب💢

Proud to be a teacher


Proud to be a teacher

yes we can - ہاں ہم کر سکتے ہیں


yes we can - ہاں ہم کر سکتے ہیں





ڈوئی تے چمٹا کی منگدا اللہ کولوں مِینہ منگدا بچپنے کی بات ہے جب بارانِ رحمت کی طلب ہوتی، دعاوں کے بعد آخری حل یہ ہوتا تھا کہ محلے کے ...



ڈوئی تے چمٹا کی منگدا
اللہ کولوں مِینہ منگدا

بچپنے کی بات ہے جب بارانِ رحمت کی طلب ہوتی، دعاوں کے بعد آخری حل یہ ہوتا تھا کہ محلے کے بچے ایک گروپ بنا لیتے.. ہاتھ میں اک کپڑا جسے چاروں کونوں سے تھاما ہوتا، کسی اک بچے کے چہرے پر سیاہی (کالک) لگا کر ہر دروازے پر صدا لگائے جاتے... ڈوئی تے چمٹا کی منگدا ۔ ۔ ۔ اللہ کولوں مِینہ منگدا..
لوگ اِس سوچ میں پڑے بنا کہ یہ حقدار ہیں یا پیشہ ور، کسی تنظیم کے بچے ہیں یا مسجد کے چندہ جمع کرنے والے، بس آٹا، دانہ، پیسہ دیتے جاتے...
اس اکٹھے کیے ہوئے آٹے گندم کو بیچ کر پیسوں سے کوئی میٹھی چیز.. میٹھے مکھانے،ٹانگر(دیہات کی سویٹس) یا  حسبِ استطاعت گندم کے دلیئے کی دیگ پکا کر اللہ کی مخلوق کو کھلائی جاتی.. یہ بہت عمدہ فارمولہ تھا.. اللہ سے صلح کرنے کا.. اجتماعی طور پر کی گئی نیکی اور گناہ بہت اثر رکھتا ہوتا ہے.. سو بچے ایک خاص "کوڈ ورڈ" میں اللہ سے مینہ مانگتے تھے.. تو واقعی بارانِ رحمت ہوتی تھی..اب ہم اللہ سے ایسی ڈیلنگ نہیں کر پاتے جس طرح وہ بچے کرتے تھے.. اُن کے ڈوئی چمٹے میں کوئی خاص منطق تھا جو ابرِ رحمت کو کھینچ لاتا تھا.

کاشف حباب


Allama amin khayal - urdu mahia nigari - kashif Habaab- yadon k safeeny- pani ki kahani


Allama amin khayal - urdu mahia nigari - kashif Habaab- yadon k safeeny- pani ki kahani

ٹیوشن کلچر- پاکستان کا تعلیمی معیار-کاشف حباب


ٹیوشن کلچر- پاکستان کا تعلیمی معیار-کاشف حباب

ہے کھیل آپ و خاک کا سارا جو بھی دنیا میں جمال دیکھا Reality or human beauty


ہے کھیل آپ و خاک کا سارا
جو بھی دنیا میں جمال دیکھا
Reality or human beauty


Koi cheek eho jai mar dila- andar da shor na sun pawan- کوئی چیک ایہو جئی مار دلا- اندر  دا شور نہ سن پاواں- کاشف حباب- Kashif Habaab ...

Koi cheek eho jai mar dila- andar da shor na sun pawan- کوئی چیک ایہو جئی مار دلا- اندر  دا شور نہ سن پاواں- کاشف حباب- Kashif Habaab



پنجابی صوفی شاعری Punjabi sufi poetry

Nizam e zulm نظام ظلم و عدل.. عدل کے منکر



Nizam e zulm نظام ظلم و عدل.. عدل کے منکر



https://www.urdupoint.com/poetry/user-poetry/kashif-habaab-19/adat-wadat-par-gai-hogi---uski-raghbat-barh-gai-hogi-5919. html

https://www.urdupoint.com/poetry/user-poetry/kashif-habaab-19/adat-wadat-par-gai-hogi---uski-raghbat-barh-gai-hogi-5919.html

کاشف  حباب- امین خیال - وسیم عالم- شعیب مرزا-  روزنامہ ابتک سپیشل

کاشف حباب- امین خیال - وسیم عالم- شعیب مرزا-  روزنامہ ابتک سپیشل

اک الف نوں چھڈ کے جیوندے نے بس جسم ساڈے اندروں اسیں موئے پئے آں دنیا نوں دے کے سبق امن دا آپ لہو لہان ہوئے پئے آں ایویں ہاسے کھلارے ...

اک الف نوں چھڈ کے

جیوندے نے بس جسم ساڈے
اندروں اسیں موئے پئے آں

دنیا نوں دے کے سبق امن دا
آپ لہو لہان ہوئے پئے آں

ایویں ہاسے کھلارے نے بُھلاں اُتے
وِچوں سبھے ای روئے پئے آں

نا اُمیدی دےویہڑے بہہ کے
بُوہے آس دے ڈھوئے پئے آں

اک الف نوں چھڈ کے اج کاشف
اسیں حرف و حرفی ہوئے پئے آں

کاشف حباب

(کاشف حباب) میں چار جماعتاں کی پڑھیاں میں فتوے لاواں ہر اک تے کدی بے عملاں تے کدی بے عقلاں تے کدی شاعری تے، کدی گاؤن تے کدی ہسن تے کد...


(کاشف حباب)
میں چار جماعتاں کی پڑھیاں
میں فتوے لاواں ہر اک تے
کدی بے عملاں تے
کدی بے عقلاں تے
کدی شاعری تے، کدی گاؤن تے
کدی ہسن تے کدی روون تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے
میں آپ مسیتی جاواں ناں
جے جاواں من ٹکاواں ناں
میں فتوے لاواں اوتھے وی
کدی وضو تے کدی نماز تے
کدی اُچی نیویں آواز تے
کدی منن یا نہ منن تے
ہتھ اُتے تھلے بنھن تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے
کدی کافر آکھاں مولویاں نوں
کدی کعبہ آکھاں مولویاں نوں
میں فتوے لاواں اینہاں تے وی
کدی ٹوپی تے کدی داڑھی تے
گل چنگی یا گل ماڑی تے
کدی شہیداں تے کدی مریاں تے
کدی مناؤندے جمن ورھیاں تے
کدی جنگاں تے کدی جہاد تے
کدی دین دی ہُندی واد تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے
کدی رسم آکھاں دین نوں
کدی دین آکھاں رسماں نوں
میں رب قرآن نوں من لیا
پر منیا چکن قسماں نوں
کدی عیداں تے شبراتاں تے
کدی جاگن والیاں راتاں تے
کدی زیراں تے کدی زبران تے
کدی مزاراں تے کدی قبراں تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے
میں سُنی وہابی حنفی ہویا
میں مالکی شافعی حنبلی ہویا
میں سب کجھ ہویا
پر_ہویا_نہ_مسلمان
ایہہ میں جو چار کتاباں پڑھیاں
اپنے علم دیاں لاواں تڑیاں
ویلا میرے علم دا ٹھوٹھا جے
ہر فتوٰی میرا جھوٹھا جے
میں آپ تاں فرض نبھاواں نہ
دین دے نیڑے جاواں نہ
پر کافر آکھاں ہر اک نوں
میں فتوے لاواں ہر اک نوں

کاشف حباب








https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1454643121266775&id=100001633048927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1454643121266775&id=100001633048927