کاشف حباب

شاعری سے مجھے کچھ سروکار نہیں - - صدائے وقت ہوں میں فنکار نہیں

ہنٹا وائرس ۔ ۔ ایک نیا خوف از قلم کاشف حباب حالیہ بین الاقوامی صورت حال سے ہم سب بخوبی آشنا ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلنا اور اس سے غیر مع...

Hantavirus by Kashif Habaab_ ہنٹا وائرس از قلم کاشف حباب

ہنٹا وائرس ۔ ۔ ایک نیا خوف
از قلم
کاشف حباب

حالیہ بین الاقوامی صورت حال سے ہم سب بخوبی آشنا ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلنا اور اس سے غیر معمولی اموات کا ہونا، حفاظتی اقدامات سے لے کر ویکسین کی تیاریوں کے مراحل تک کی تمام خبریں ہماری سماعتوں کو اپنا لمس ضرور دے چکی ہوں گی۔ اسی کشاکش میں خوف کے ایک اور نام نے ہمارے ذہنوں کو اپنی طرف منعطف کیا ہے۔ وہ نام "ہنٹا وائرس"کا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق چین کے صوبہ ینان کا باشندہ جو کہ بس میں سفر کرتے ہوئے صوبہ شندونگ جا رہا تھا۔ اچانک بس میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق معلوم ہوا کہ اس کی موت ہنٹا نامی وائرس سے ہوئی ہے۔ بس میں سوار باقی مسافروں (جن کی تعداد بتیس بتائی گئی)  کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان کی رپورٹ بھی پازیٹیو آئی۔

اب جاننا ضروری یہ ہے کہ ہنٹا وائرس کب، کہاں اور کیسے وجود میں آیا ۔ اس سے متاثرہ شخص کی علامات اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہیں؟

1978 میں اس وائرس کا پتا لگایا گیا تو معلوم ہوا یہ وائرس کورین ہیمورولوجک فیور بیماری کا نام ہے جو کہ شمالی کوریا میں ہنٹن نامی دریا کے کنارے رہنے والے چوہوں کی وجہ سے پھیلتی ہے۔
1981 میں اس وائرس کا نام ہنٹا وائرس رکھا گیا۔
پہلا سوال کہ یہ وائرس چوہوں سے انسانی وجود میں آتا کیسے ہے؟ کیوں کہ عام طور پر انسان کا چوہوں اور گلہریوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو بلا واسطہ طور پر چوہوں کے کھا کے چھوڑے (کترے) ہوئے پھل سبزیاں یا کچھ بھی استعمال کی چیز جنہیں انسان مستعمل کرے۔ چوہوں کے فضلے اور  بول و براز والے ماحول میں سانس لینے سے یا دانستہ طور پر اس کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے سے یہ وائرس انسانی جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔

ایسی خوراک انسانی جسم کے لیے ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔ جس کے رد عمل سے نہ صرف متاثرہ شخص جان سے جاتا ہے بلکہ اردگرد گرد کے لوگ بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

اس کی علامات کورونا وائرس کی طرح چھینک، نزلہ اور کھانسی کی سی بالکل نہیں ہیں۔ ہنٹا وائرس میں سر درد، بخار، متلی، قے اور ڈائیریا کی سی کیفیت ہو جاتی ہے۔
اس کی شدت کا اندازہ لگانے سے قبل طبی ماہرین نے اس وائرس کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک، ایچ ایس آر ایف جو کہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتا۔ اس کی تشخیص کے لیے یورین ، پی سی آر یا سیرولوجک ٹیسٹ کروائے جا سکتے ہیں۔ وائرس کی یہ قسم قابلِ علاج ہے۔
 دوسری قسم ایچ پی ایس ہے۔ اس میں علامات بھی وہی ہوتی ہیں مگر جسم میں باالواسطہ طور پر منتقل ہونے کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس قسم کے وائرس کی ویکسین دریافت نہیں ہوئی۔

ہنٹا وائرس کے لیے حفاظتی اقدامات صفائی ستھرائی کو اپنا کر بآسانی کیے جا سکتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھنے سے اور پھل سبزیاں دھو کر کھانے سے بھی ایسی آلودہ امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ رہی بات ہنٹا وائرس کو کورونا کی طرح سنگین سمجھنے کی تو ایسی خوف والی بات نہیں ہے۔ چین میں چوہے بہ طور خوراک استعمال ہوتے ہیں اس لیے اس وائرس کا وجود وہیں پر ہی ہے اور کورونا کی طرح عالمی وبائی مرض نہیں۔

0 comments: