Dr. Fazeelat bano Dr. Riaz Hamdani Prof. Akram Nasir Prof. Asim Aslam Dr. Farheen choudhry Syed tehseen gillani Farooq akmal Dr. Ad...
حلقہ اربابِ ذوق ساہیوال_کاشف حباب_halqa arbab e zoq sahiwal_kashif habaab
حلقہ اربابِ ذوق ساہیوال _ کاشف حباب_ Halqa arbab e zoq sahiwal_ Kashif Habaab ijlas
Kashif Habaab daily news day Gujranwala_کاشف حباب روزنامہ نیوز ڈے گوجرانوالہ
ہنٹا وائرس ۔ ۔ ایک نیا خوف از قلم کاشف حباب حالیہ بین الاقوامی صورت حال سے ہم سب بخوبی آشنا ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلنا اور اس سے غیر مع...
Hantavirus by Kashif Habaab_ ہنٹا وائرس از قلم کاشف حباب
ہنٹا وائرس ۔ ۔ ایک نیا خوف
از قلم
کاشف حباب
حالیہ بین الاقوامی صورت حال سے ہم سب بخوبی آشنا ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلنا اور اس سے غیر معمولی اموات کا ہونا، حفاظتی اقدامات سے لے کر ویکسین کی تیاریوں کے مراحل تک کی تمام خبریں ہماری سماعتوں کو اپنا لمس ضرور دے چکی ہوں گی۔ اسی کشاکش میں خوف کے ایک اور نام نے ہمارے ذہنوں کو اپنی طرف منعطف کیا ہے۔ وہ نام "ہنٹا وائرس"کا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق چین کے صوبہ ینان کا باشندہ جو کہ بس میں سفر کرتے ہوئے صوبہ شندونگ جا رہا تھا۔ اچانک بس میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق معلوم ہوا کہ اس کی موت ہنٹا نامی وائرس سے ہوئی ہے۔ بس میں سوار باقی مسافروں (جن کی تعداد بتیس بتائی گئی) کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان کی رپورٹ بھی پازیٹیو آئی۔
اب جاننا ضروری یہ ہے کہ ہنٹا وائرس کب، کہاں اور کیسے وجود میں آیا ۔ اس سے متاثرہ شخص کی علامات اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہیں؟
1978 میں اس وائرس کا پتا لگایا گیا تو معلوم ہوا یہ وائرس کورین ہیمورولوجک فیور بیماری کا نام ہے جو کہ شمالی کوریا میں ہنٹن نامی دریا کے کنارے رہنے والے چوہوں کی وجہ سے پھیلتی ہے۔
1981 میں اس وائرس کا نام ہنٹا وائرس رکھا گیا۔
پہلا سوال کہ یہ وائرس چوہوں سے انسانی وجود میں آتا کیسے ہے؟ کیوں کہ عام طور پر انسان کا چوہوں اور گلہریوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو بلا واسطہ طور پر چوہوں کے کھا کے چھوڑے (کترے) ہوئے پھل سبزیاں یا کچھ بھی استعمال کی چیز جنہیں انسان مستعمل کرے۔ چوہوں کے فضلے اور بول و براز والے ماحول میں سانس لینے سے یا دانستہ طور پر اس کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے سے یہ وائرس انسانی جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔
ایسی خوراک انسانی جسم کے لیے ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔ جس کے رد عمل سے نہ صرف متاثرہ شخص جان سے جاتا ہے بلکہ اردگرد گرد کے لوگ بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
اس کی علامات کورونا وائرس کی طرح چھینک، نزلہ اور کھانسی کی سی بالکل نہیں ہیں۔ ہنٹا وائرس میں سر درد، بخار، متلی، قے اور ڈائیریا کی سی کیفیت ہو جاتی ہے۔
اس کی شدت کا اندازہ لگانے سے قبل طبی ماہرین نے اس وائرس کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک، ایچ ایس آر ایف جو کہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتا۔ اس کی تشخیص کے لیے یورین ، پی سی آر یا سیرولوجک ٹیسٹ کروائے جا سکتے ہیں۔ وائرس کی یہ قسم قابلِ علاج ہے۔
دوسری قسم ایچ پی ایس ہے۔ اس میں علامات بھی وہی ہوتی ہیں مگر جسم میں باالواسطہ طور پر منتقل ہونے کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس قسم کے وائرس کی ویکسین دریافت نہیں ہوئی۔
ہنٹا وائرس کے لیے حفاظتی اقدامات صفائی ستھرائی کو اپنا کر بآسانی کیے جا سکتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھنے سے اور پھل سبزیاں دھو کر کھانے سے بھی ایسی آلودہ امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ رہی بات ہنٹا وائرس کو کورونا کی طرح سنگین سمجھنے کی تو ایسی خوف والی بات نہیں ہے۔ چین میں چوہے بہ طور خوراک استعمال ہوتے ہیں اس لیے اس وائرس کا وجود وہیں پر ہی ہے اور کورونا کی طرح عالمی وبائی مرض نہیں۔
از قلم
کاشف حباب
حالیہ بین الاقوامی صورت حال سے ہم سب بخوبی آشنا ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلنا اور اس سے غیر معمولی اموات کا ہونا، حفاظتی اقدامات سے لے کر ویکسین کی تیاریوں کے مراحل تک کی تمام خبریں ہماری سماعتوں کو اپنا لمس ضرور دے چکی ہوں گی۔ اسی کشاکش میں خوف کے ایک اور نام نے ہمارے ذہنوں کو اپنی طرف منعطف کیا ہے۔ وہ نام "ہنٹا وائرس"کا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق چین کے صوبہ ینان کا باشندہ جو کہ بس میں سفر کرتے ہوئے صوبہ شندونگ جا رہا تھا۔ اچانک بس میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق معلوم ہوا کہ اس کی موت ہنٹا نامی وائرس سے ہوئی ہے۔ بس میں سوار باقی مسافروں (جن کی تعداد بتیس بتائی گئی) کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان کی رپورٹ بھی پازیٹیو آئی۔
اب جاننا ضروری یہ ہے کہ ہنٹا وائرس کب، کہاں اور کیسے وجود میں آیا ۔ اس سے متاثرہ شخص کی علامات اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہیں؟
1978 میں اس وائرس کا پتا لگایا گیا تو معلوم ہوا یہ وائرس کورین ہیمورولوجک فیور بیماری کا نام ہے جو کہ شمالی کوریا میں ہنٹن نامی دریا کے کنارے رہنے والے چوہوں کی وجہ سے پھیلتی ہے۔
1981 میں اس وائرس کا نام ہنٹا وائرس رکھا گیا۔
پہلا سوال کہ یہ وائرس چوہوں سے انسانی وجود میں آتا کیسے ہے؟ کیوں کہ عام طور پر انسان کا چوہوں اور گلہریوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو بلا واسطہ طور پر چوہوں کے کھا کے چھوڑے (کترے) ہوئے پھل سبزیاں یا کچھ بھی استعمال کی چیز جنہیں انسان مستعمل کرے۔ چوہوں کے فضلے اور بول و براز والے ماحول میں سانس لینے سے یا دانستہ طور پر اس کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے سے یہ وائرس انسانی جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔
ایسی خوراک انسانی جسم کے لیے ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔ جس کے رد عمل سے نہ صرف متاثرہ شخص جان سے جاتا ہے بلکہ اردگرد گرد کے لوگ بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
اس کی علامات کورونا وائرس کی طرح چھینک، نزلہ اور کھانسی کی سی بالکل نہیں ہیں۔ ہنٹا وائرس میں سر درد، بخار، متلی، قے اور ڈائیریا کی سی کیفیت ہو جاتی ہے۔
اس کی شدت کا اندازہ لگانے سے قبل طبی ماہرین نے اس وائرس کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک، ایچ ایس آر ایف جو کہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتا۔ اس کی تشخیص کے لیے یورین ، پی سی آر یا سیرولوجک ٹیسٹ کروائے جا سکتے ہیں۔ وائرس کی یہ قسم قابلِ علاج ہے۔
دوسری قسم ایچ پی ایس ہے۔ اس میں علامات بھی وہی ہوتی ہیں مگر جسم میں باالواسطہ طور پر منتقل ہونے کی وجہ سے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس قسم کے وائرس کی ویکسین دریافت نہیں ہوئی۔
ہنٹا وائرس کے لیے حفاظتی اقدامات صفائی ستھرائی کو اپنا کر بآسانی کیے جا سکتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھنے سے اور پھل سبزیاں دھو کر کھانے سے بھی ایسی آلودہ امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ رہی بات ہنٹا وائرس کو کورونا کی طرح سنگین سمجھنے کی تو ایسی خوف والی بات نہیں ہے۔ چین میں چوہے بہ طور خوراک استعمال ہوتے ہیں اس لیے اس وائرس کا وجود وہیں پر ہی ہے اور کورونا کی طرح عالمی وبائی مرض نہیں۔
Poetry on save the trees_kashif habaab_ mujh ko dukh_ کاشف حباب
دعا علی شاعری_ باب دعا میگزین_ Dua Ali poetry_ _kashif habaab_ کاشف حباب
Kashif Habaab microfiction_ microf_khayanat_dua Ali poetry_bab e Dua online magazine_کاشف حباب _ خیانت_ باب دعا میگزین
Urdu quote on patience_kashif habaab_ برداشت اور صبر_کاشف حباب
Anaa Jeet jae gi_ Kashif Habaab poetry_ انا جیت جائے گی _ کاشف حباب
Poetry on justice_kaahif habaab_ motivational poetry_ ہم جو عدل کے داعی تھے کاشف حباب
آ ویکھ نی وٙردا اک تیرا پردہ اک میرا پردہ توں لکھاں پٙتی میں بختاں سٙتی توں پوسٹراں ٹنگی فیر وی ننگی میں اِکو لیڑے کٙجی ڈِھڈوں بُک...
Aa wekh no warda _ Kashif habaab_poetry punjabi_آ ویکھ نی وردا اک تیرا پردہ کاشف حباب
آ ویکھ نی وٙردا
اک تیرا پردہ
اک میرا پردہ
توں لکھاں پٙتی
میں بختاں سٙتی
توں پوسٹراں ٹنگی
فیر وی ننگی
میں اِکو لیڑے کٙجی
ڈِھڈوں بُکھی نِیتوں رٙجی
نی توں سدراں کیوں اُسار دی
سانوں جیوندیاں جی مار دی
ویلا آپنے دوہاں دا اِکو ورگا
پر تیرا ہنڈدا ساڈا سردا
آ ویکھ نی آکے وردا
اک تیرا پردہ
اک میرا پردہ
کاشف حباب
اک تیرا پردہ
اک میرا پردہ
توں لکھاں پٙتی
میں بختاں سٙتی
توں پوسٹراں ٹنگی
فیر وی ننگی
میں اِکو لیڑے کٙجی
ڈِھڈوں بُکھی نِیتوں رٙجی
نی توں سدراں کیوں اُسار دی
سانوں جیوندیاں جی مار دی
ویلا آپنے دوہاں دا اِکو ورگا
پر تیرا ہنڈدا ساڈا سردا
آ ویکھ نی آکے وردا
اک تیرا پردہ
اک میرا پردہ
کاشف حباب
ہمدردی پنجابی منظوم ترجمہ کاشف حباب _hamdardi poem Punjabi translation_ William coopee
Kashif habaab_microfiction_microf_monthly Bab e Dua magazine_کاشف حباب_ کربِ مسلسل _ باب دعا انٹرنیشنل میگزین
Kashif habaab_poet_writer_ children writer_sahiwal ki adbi tareekh_کاشف حباب_ساہیوال کی ادبی تاریخ
Arham bin Kashif _kashif habaab_ارحم بن کاشف _کاشف حباب attitude boy pics, wallpaper cute boy
Sahiwal ki adbi tareekh by Dr. Mushtaq Adil-Kashif Habaab-ساہیوال کی ادبی تاریخ_ کاشف حباب
Sahiwal ki adbi tareekh by Dr. Mushtaq Adil-Kashif Habaab-ساہیوال کی ادبی تاریخ_ کاشف حباب
Subscribe to:
Posts (Atom)
0 comments: